ویسے بھی چھٹیوں کا پہلا دور رمضان کا ہوگا اور رمضان میں اپنی والدہ کی گھر میں افطاری اور سحری کے اوقات میں ہاتھ بٹائیں اور وہ آپ کو خوب دعاؤں سے نوازیں۔ رمضان المبارک میں اعمال کا خوب اہتمام کریں۔ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔
سارا سال بچوں نے خوب پڑھا، پاس ہوئے اورنئی کلاسوں میں گئے۔ پڑھائی کی ابتدا ہوئی، اب سالانہ چھٹیاں ہوئیں توذرا تفریح بھی ہو جائے۔ والدین یقیناً ان کے کیلئے کچھ مصروفیات چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ گھر پر رہ کر صرف اودھم نہ مچائیں یا کمپیوٹر اور موبائل کی طلسماتی دنیا کے اسیر ہوکر ہی نہ رہ جائیں بلکہ پریکٹیکل بنیں اور کچھ سیکھیں اس کیلئے ہم کچھ تجاویز لائے ہیں یقیناً مائیں ان پر عمل کریں گی۔آپ سے گزارش ہے کہ ان چھٹیوں کا ایک مصرف فلاحی اداروں کے دورے کرنا‘ غربا و مساکین کی امداد کرنا یا ایسے سکولوں میں جاکر اپنے بچوں کی خدمات پیش کرنا بھی ان کی تربیت کا ضامن ہوسکتا ہے، مصروفیت کا یہ پلیٹ فارم ان میں اخلاقی اقدار پیدا کرے گا۔بچوں سے یہ کہنا ہے کہ ہر کام کرنے کا ایک اصول ہوتا ہے۔ مثلاً آپ صبح سویرے اٹھ کر واش روم سے فارغ ہوکر دانت صاف کرتے ہیں‘ باوضو ہوکر نماز پڑھتے ہیں پھر ناشتہ کرکے سکول کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ بستر سے اٹھتے ہی یونیفارم پہنا اور جاکر وین میں سوار ہوگئے۔ اب بھی جیسا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ہوچکی ہیں تو اپنی روٹین تھوڑی سی بدلئے مگر عادت نہ بگاڑئیے۔ یہ دو تین ماہ بھی نہایت قیمتی ہیں۔ اس عرصے میں آپ اپنے رزلٹ کو بہتر بنانے کیلئے تعلیمی کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ اپنا یہ قیمتی وقت موبائل یا کمپیوٹر پر گیمز، گلی میں کرکٹ یا دیگر غیرضروری مشاغل میں ہرگز نہ گزارئیے۔ بے شک سارا دن کوئی نہیں پڑھ سکتا۔ آپ کو تفریح بھی کرنی ہے مگر موبائل یا کمپیوٹر پر کھیلنا ہی تفریح نہیں یہ غیرضروری مشغلہ ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل کا کثرت سے استعمال صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ آپ کی آنکھیں، کان اور دماغ تینوں اعضاء پر اضافی بوجھ پڑتا ہے تھکاوٹ بڑھتی ہے۔ دودھ سےاکثریت کو ویسے ہی چڑ ہے لیکن کولڈ ڈرنکس اور چپس یا پھر جنک فوڈ کھانا بھی تو چھٹیوں کا بہترین مصرف نہیں۔
کھانے وہ کھائیں جو گرم موسم میں زود ہضم ہوں اور ہلکی غذا کہلاتےہوں۔ کھیل بھی ایسے کھیلیں جس میں جسمانی ورزش ہو، جیسے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس، والی بال اور باسکٹ بال وغیرہ۔ ٹی وی ہرگز نہ دیکھتے رہیں کہیں آپ سست اور کاہل نہ ہوجائیں۔چھٹیوں کا ہوم ورک کسی کی رہنمائی میں کرلیں اور خود اپنا ٹائم ٹیبل بنائیں۔ کمپیوٹر سے معلومات حاصل کریں جو آپ کے نصابی مسائل کا حل پیش کرتی ہو ناکہ بے کار میں دوستوں سے فیس بک پر چیٹنگ کرتے رہیں۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ کھانے کیلئے امی آوازیں دے رہی ہیں اور آپ کمپیوٹر کی ایل سی ڈی کے سامنے سےہٹنا ہی نہیں چاہتے۔بڑھتی ہوئی عمر کی بچیوں کیلئے یہ سنہری موقع ہے کہ گھر گرہستی کے معاملات میں ہاتھ بٹاتے بٹاتے کچھ نہ کچھ نیا کام سیکھ لیں جس سے والدین خوش ہوں۔ ویسے بھی چھٹیوں کا پہلا دور رمضان کا ہوگا اور رمضان میں اپنی والدہ کی گھر میں افطاری اور سحری کے اوقات میں ہاتھ بٹائیں اور وہ آپ کو خوب دعاؤں سے نوازیں۔ رمضان المبارک میں اعمال کا خوب اہتمام کریں۔ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ درسی کتب کے ساتھ ساتھ اسلامی کتب کا مطالعہ کریں۔
چھٹیوں میں بچوں کی تربیت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مصروفیت سے پہلے فرصت کوغنیمت جانو۔’’ (المستدرک للحاکم: 7846)
لہٰذا نبی کریمﷺ کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتےہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح،گھر کے ماحول کی بہتری، بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کرایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتاہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کما حقہ استعمال نہیں کر سکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش خدمت ہیں:
پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذرنہ کریں۔ بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مدنظر رکھ کربچوں سے مشاورت کر کے سونے کے اوقات کا تعین کر لیاجائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ لمبی چھٹیاں ہو گئی ہیں، اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے‘اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سےکریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری پیدا ہو جائے گی اور وہ وقت جو آپ کے حسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہوجائے گا۔
بچوں کے ساتھ مل کر ہر ہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ان کے ذہن اور دلچسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا وقت کا ضیاع اور بچوں کی حق تلفی ہے۔ جب آپ کی سب سےقیمتی متاع اور خزانے آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کےمستقبل یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جا سکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانےکی ذمہ داری لگائیے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تا کہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہواور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہوسکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ یا اسلامی لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کاترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کرائی جائیں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیشکش کریں۔ چھٹیوں کے کام کیلئے ایک وقت مقرر کریں اور انہیںاپنی نگرانی میں کروائیں۔ گھر میں گملے یا کیاری میں پودے لگائیں اور بچوں کو ان کی نگہداشت کے گُر سکھائیں۔ بچوں کے دوستوں کو گھر پر بلائیں اور ان کو خوب عزت سے نوازیں اس سے بچوں اور ان کے دوستوں کا آپ پر اعتماد بڑھے گا جو مستقبل میں آپ کے بہت کام آئے گا۔ دو ڈھائی ماہ بچےآپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انہیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ نبی کریم ﷺکے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم وتربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں